بوتل بیتی
آج بڑی مُدّت کے بعد صبح کی سیر کو جی چاہا- گھر سے نکلا تو جا بجا کوڑے کرکٹ کے ڈھیر نظر آئے- آگے جا کر گٹروں کے کھُلے مین ہول دکھائی دیے- گندے نالے کے کنارے چلتا چلتا میں آبادی سے دور نکل گیا اور ساحلِ سمندر پہ چلا آیا-
ایک جگہ ریت پہ پلاسٹک کی کچھ خالی بوتلیں پڑی تھیں- شاید رات کو یہاں کوئی پارٹی وغیرہ ہوئی تھی- منرل واٹر کی بوتلیں ، سوڈا واٹر کی بوتلیں، جوس کے ڈبّے اور بوتلیں- چلتا چلتا میں ایک ساحلی چٹان پہ جا بیٹھا جہاں لوگ پکنک منانے آتے ہیں-
یہاں بھی پرانی بوتلوں کے انبار لگے تھے اور پلاسٹک کی ایک دنیا آباد تھی- میں نے سوڈا واٹر کی ایک خالی بوتل اٹھائی- اسےالٹایا تو کچھ قطرے پانی کے ریت پہ گر کے جذب ہو گئے- اچانک ہی اس بوتل نے ایک جھرجھری سی لی اور میرے ہاتھ سے چھوٹ کے گر گئی-
میں سخت خوفزدہ ہوا اور اٹھ کر کافی دور جا کھڑا ہوا- اتنی صبح ساحل پہ میرے علاوہ کوئی نہ تھا اور یہ بات یقیناً خوفزدہ کرنے والی تھی- آخر مناسب فاصلہ رکھ کر اس بوتل کو حیرت سے دیکھنے لگا جو زمین پہ کسی ماہیِ بے آب کی طرح تڑپ رہی تھی-
اچانک ہی وہ بوتل سیدھی کھڑی ہوئی اور دو چھوٹے چھوٹے ہاتھ اس کے دونوں اطراف سے برامد ہوئے- میرا دل تیزی سے دھڑکا- وہ اشارے سے مجھے اپنے پاس بلا رہی تھی-
میں سمجھ گیا کہ یہ ایک خواب ہے- جب بھی ہم کوئی انہونی چیز دیکھتے ہیں، شعور اس کی حقیقت کو جھٹلا دیتا ہے- ایسی صورت میں، میں اسے ایک دلچسپ خواب سمجھ کر خوب لطف اٹھاتا ہوں-
میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس بوتل کے پاس جا بیٹھا- یوں لگا گویا کوئی مجھ سے سرگوشی کرتا ہو- یہ کسی دوشیزہ کی مدھر آواز تھی- میرا خوف اب دور ہو چکا تھا اور عقل نے تسلیم کر لیا تھا کہ یہ ایک خواب ہے- بے شمار خواب میری آنکھوں میں رقص کرنے لگے اور میں نے بوتل کو اٹھا کر کہا، باہر آؤ جل پری، اندر کیا کرتی ہو؟
اندر سے آواز آئی ، میں کوئی جل پری نہیں ایک بوتل ہوں، پلاسٹک کی ایک خالی بوتل- خدا نے مجھے روح خفی عطا کی تا کہ تجھ سے کلام کر سکوں-
یہ کہ کر وہ کسی شوخ دوشیزہ کی طرح کھلکھلا کر ہنسی پھر اچانک ہی پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی-
میں نے حیرت سے کہا، تمہاری اس ہنسی کو کیا معنی پہناؤں اور گریہ کا کیا مفہوم اخذ کروں؟
وہ بولی ، ہنسی اس لیے ہوں کہ مدت بعد آج کسی انسان نے مجھے چھوا ہے اور روئی اس لیے ہوں کہ تم انسان بھی کتنے ظالم ہو؟ بوتل کو مونہہ لگا کر پھینک دیتے ہو؟ جانتے بھی ہو میں کب سے یہاں پڑی ہوں؟
میں نے تاسف سے پلاسٹک کی اس خالی بوتل کو دیکھا اور نفی میں سر ہلا دیا-
وہ بولی ، میں تیس برس سے یہاں پڑی ہوں- سخت گرمیوں کے دن تھے- یہاں کچھ لوگ پکنک منانے آئے تھے- کچھ من چلوں نے گھڑی بھر کو ہمیں مونہہ لگایا اور پھینک کر چل دیے- مجھے مونہہ لگانے والا تمہاری عمر کا ہی ایک بڈھا تھا- اب تک شاید وہ مر کھپ چکا ہو ، عین ممکن ہے کہ اس کی ہڈیاں تک گل چکی ہوں ، مگر میں ابھی تک نہیں گلی- اس لئے کہ کرّہ ارض پر پلاسٹک کی ایک بوتل 450 برس تک جیتی ہے-
میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں- "ساڑھے چار سو برس؟ واقعی؟ اتنی طویل زندگی؟"
وہ بولی ، جی ہاں یہ مجھ جیسی ایک عام بوتل کی عمر ہے- کچھ سخت جان بوتلیں تو ہزار برس تک نکال جاتی ہیں- دس سال تو ایک عام شاپر کی عمر ہے بڑے میاں- اور کچھ بڑھیا شاپرز تو آٹھ سو سال سے بھی اوپر جی لیتے ہیں- جس تیزی سے زمین پر تُم انسانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے، کچرا اس سے سیکڑوں گنا تیزی سے بڑھ رہا ہے- ارے بے وقوفو ! کچھ تو حیا کرو- ری سائکلنگ پلانٹ نہیں لگا سکتے تو ہمیں ری یوُز ہی کر لو- پلاسٹک شاپر کی بجائے کپڑے کا تھیلہ استعمال کر لو- خدا کی زمین کو آخر کتنا گندا کرو گے- آخر کچرے کے بوجھ سے اسے کب آزاد کرو گے؟
میری آنکھ کھل چکی تھی اور جسم پسینہ پیسنہ تھا- جلدی سے اٹھ کر باہر گیا- فریج سے پانی کی ایک بوتل نکالی اور دوچار گھونٹ لے کر اسے تھام کر کہا، فکر نہ کرو جل پری- میں تمہیں کبھی نہیں پھینکوں گا- تم جب تک چاہو یہاں رہ سکتی ہو- یہی سبق میں آنے والی نسلوں کو دوں گا کہ کم سے کم پلاسٹک کا استعمال کرو ، اسے ری سائیکل کرو یا کباڑیے کو دو ، مگر سر راہ مت پھینکو ورنہ 2050ء تک سمندر میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہو گی-

0 Comments