حاتم کی نیکی -- ظفرجی
ٹرو کا قصّہ ہے کہ تین پردیسی بنیانیں پہنے کمرے میں تاش کھیل رہے تھے- ناگاہ شہزادہ حاتم کی سواری وہاں سے گزری- اس سخی کا عالم یہ تھا کہ ہاتھ میں تلوار کی بجائے ڈیو کی ایک قد آدم بوتل تھی اور نعرہ لگاتا تھا ، نیکی کر کنویں میں ڈال-
یہ منظر دیکھ ایک پیرِ مرد نے آہ بھری اور کہا:
" واہ شیخ ! آج تو دل کی حسرت پوری کر دی- کابلی پلاؤ کھانے کے بعد واللہ اسی کی تمنّا تھی "
دوسرا بولا ، سبحان اللہ- آج ثابت ہو گیا کہ نوشیروانِ زمانہ اور حاتمِ یگانہ صرف آپ ہی ہیں- بخدا آپ کی سخاوت پہ یقین آ گیا-
تیسرا پتّا پھینکتے ہوئے اٹھا اور کہیں سے تین جام خالی اٹھا لایا-
حاتم نے درب اس بوتل یخوی کی کھولی اور کہا:
پیارو !
لاک ڈاؤن کا زمانہ ہے- شہر بھر میں رکشہ بھگایا اور بمشکل " لی مارکیٹ" سے یہ بطری ہاتھ آئی ہے- خرچہ کرایہ ڈال کر 420 کی پڑی ہے- 120 اس سخی کے ذمے باقی سو سو روپیہ فی جام بڑھا دیجیے گا- مثل مشہور ہے کہ سخیوں سے مال اینٹھنا صرف ہینڈسم کو سزاوار ہے- عوام کو چاہیے کہ روکھی سوکھی مل بانٹ کے کھاویں اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاویں-
یہ سنتے ہی احباب کے ہوش اڑ گئے اور خوشیوں پر ان کی اوس پڑ گئی-
ایک پیرِ مرد جو پنڈی کا تھا بولا، تساں بہوں کنجوس مکھی چوس او- کُوڑی مُوڑی نے حاتم بنڑین گھشنے اوں-
دوسرا جو چکوال کا تھا بولا، خدائے ناں خوف کرو- ہن رکشے ناں کرایہ وی اساں کولیں منگسو ؟
تیسرا جو خاص ہزارے کا تھا تاؤ کھا کر بولا ، کدے جُلدے ای ہاسے تے کسا نال مشورہ ای کر کنّوں آ- ہُن ہر کسا کُوں ڈیو تھوڑی پسند اے- ستاوی کیمیکلز اوندین اس بِچ- سیون اپ کِنو آ ناں !
حاتم نے کہا :
افسوس اس قوم پر جو مفت کی تو موت بھی قبول کر لے اور روپے دیے کر زندگی کی ایک چھوٹی سی خوشی بھی نہ خرید سکے- اسی لیے نعرہ لگاتا ہوں کہ نیکی کر کنویں میں ڈال- ہن ان شاءاللہ خواباں وچ ای پیسو- تم لوگوں پہ نیکی برباد کرنے کی بجائے اسے کنویں میں پھینکنا ہی مناسب ہے-
قصّہ گوؤں نے لکھا ہے کہ اگلے کئی سال تک حاتم وہ بوتل قطرہ قطرہ کر کے اپنے پیٹ کے کنویں میں ڈالتا رہا اور نعرہ لگاتا رہا نیکی کر کنویں میں ڈال

0 Comments