Ticker

6/recent/ticker-posts

Soup


 سوُپ -- ظفرجی


میں اس ریڑھی والے کا آخری گاہک تھا- مزیدار یخنی کے ہلکے ہلکے گھونٹ لیتے ہوئے یہ خیال ہوا کہ یہ شخص کتنا بدقسمت ہے- 

رات سر پہ آ گئی تھی اور ابھی تک پرات اس کی یخنی سے بھری ہوئی تھی-

"کاش میں اسے ایک بڑا فریج دلا سکتا ، جس میں یہ بچی کھچی یخنی سنبھال لیتا- مرغی کون سی سستی ہے- بیچارہ 5 روپے کا پیالہ ہی تو دیتا ہے- آخر کتنا کماتا ہو گا- ابھی تک پرات اس کی بھری پڑی ہے" میں نے پیالے کی آخری چسکیاں لیتے ہوئے سوچا- 

گھڑی کی سوئی نے گیارہ بجائے تو اس غریب یخنی فروش نے پہلے اس مرغِ مصلوب کو اتارا ، جو پرات پہ لٹکا ہوا تھا- پھر  پوری پرات ساتھ بہتے ہوئے گندے نالے میں انڈیل دی-

اس بے وقوفانہ حرکت پر میں چپ نہ رہ سکا اور حیرت سے کہا:

"یہ کیا کر دیا آپ نے ؟ اتنا چکن ضائع کر دیا ؟؟

"چکن ؟؟  سوپ تھا بھائی"

وہ لاپرواہی سے بولا-

"ہاں ہاں وہی سوُپ ... لیکن بنتا تو چکن سے ہی ہے ناں" 

"چریا ہو گیا ہے کیا؟ چکن سے کون سا سوپ بنتا ہے؟ مرغا تو صرف اوپر لٹکانے کو ہے"

"پھِر کس چیز سے بنتا ہے بھائی؟" میں نے سوال کیا-

" مُرغی کے پروں سے !!" وہ برتن سمیٹتے ہوئے بولا- "بھائی ہم  روز شام کو مرغی بازار جاتا ہوں اور دو چار کلو پر کھال سمیت اٹھا لاتا ہوں- پھر انہیں پانی میں ڈال کے خوب ابالتا ہوں اور چھان کر اس میں مرچ مصالحہ ڈال کر لے آتا ہوں"

"استغفار... "میں نے بمشکل ابکائی روکی- " اتنا گندا کام کرتے ہوئے تمہیں کراہت نہیں آتی؟"

وہ مجھے بغور دیکھتے ہوئے بولا:

 " یا تو تم کراچی میں نئے ہو یا مذاق کر رہے ہو- یہاں تو مرغی پونچھ کو بھی معاف نہیں کیا جاتا- سیخ بوٹی بنا کر بیچتے ہیں اور وہ رش لیتی ہے کہ خدا کی پناہ ... چل پیالہ واپس کر مجھے سامان سمیٹنا ہے"

یہ 1996ء کا قصّہ ہے- کتنی طاقت تھی ان پروں میں کہ آج تک اڑتے پھرتے ہیں 😉

Post a Comment

0 Comments